سورہ مریم ایت نمبر 1تا 5

 شان نزول 


یہ ایک ایسی سورہ ہے جس کا نام ہی ایک ایسی اعلی خاتون کے نام پہ رکھا گیا ہے جو ایک نبی کی والدہ ہے  بہت ہی اعلی اس کے مضامین کا سلسلہ ہے لیکن اس کے اندر جو زیادہ اہم مضمون ہے وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کا ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کو بڑے احسن انداز سے اس میں بیان کیا گیا دوسرا اس سورہ میں حضرت عیسی علیہ السلام کی وہ تمام گفتگو شامل ہے جو نجاشی کے دربار میں جب مسلمان پہنچے تھے اور ان سے جب پوچھا گیا تھا  کہ عیسی علیہ السلام کے بارے میں بتاؤ کہ تمہارا عقیدہ کیا ہے تو حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ نے اسی صورت کا دوسرا رکوع پڑھا تھا تو دربار نجاشی کے اندر سناٹا چھا گیا زبانیں بند ہو گئیں اور خود بادشاہ نجاشی کی انکھوں سے بھی انسو بہہ نکلے قران کا اتنا نور قران کا اتنا روب کہ نجاشی یہ کہنے پہ مجبور ہو گیا کہ جو تم نے کہا ہے وہ بالکل درست کہا ہے عیسی علیہ السلام کے بارے میں اس سے اچھی بات اور نہیں کی جا سکتی جو تم نے کی ہے اور میں مسلمانوں کو اجازت دیتا ہوں کہ وہ میرے ملک میں جب تک رہنا چاہیں رہ سکتے ہیں بڑی اعلی بڑی برکتوں سے بھری ہوئی یہ سورہ مبارکہ ہے عورتوں کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ باقاعدہ ایک عورت کے نام کے اوپر سورہ موجود ہے اور اس سے پہلے سورہ النساء بھی وہ بالعمور تمام عورتوں کے لیے نازل کی گئی اور اس کا نام بھی رکھا گیا اور سورہ مریم جو ہے وہ باقاعدہ ایک خاتون کے لیے اور ایک عورت کے نام کے اوپر اتاری گئی تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ اپنے قران میں باقاعدہ عورتوں کی نمائندگی بھی فرماتا ہے اور عورتوں کے لیے باقاعدہ قران میں  ایک پورا پورشن رکھا گیا ہے ایک پوری قران کے اندر ایک ان کی ترتیب ہے جو اللہ پسند فرماتا ہے کہ عورتوں کی بھی قران کے اندر ذکر خیر کیا جائے  تو ائیے اس کی خوبصورت ایات سے اپنے قلوب و اذان کو منور کرتے ہیں روشنی دیتے ہیں


 بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
كٓـهٰـيٰـعٓـصٓ (1) ↖
ک ھ ی ع صۤ۔

ذِكْرُ رَحْـمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهٝ زَكَرِيَّا (2) ↖
یہ تیرے رب کی مہربانی کا ذکر ہے جو اس کے بندے زکریا پر ہوئی۔

اِذْ نَادٰى رَبَّهٝ نِدَآءً خَفِيًّا (3) ↖
جب اس نے اپنے رب کو خفیہ آواز سے پکارا۔

قَالَ رَبِّ اِنِّـىْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّىْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَيْبًا وَّلَمْ اَكُنْ بِدُعَآئِكَ رَبِّ شَقِيًّا (4) ↖
کہا اے میرے رب! میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور سر میں بڑھاپا چمکنے لگا ہے اور میرے رب! تجھ سے مانگ کر میں کبھی محروم نہیں ہوا۔

وَاِنِّـىْ خِفْتُ الْمَوَالِىَ مِنْ وَّّرَآئِىْ وَكَانَتِ امْرَاَتِىْ عَاقِرًا فَهَبْ لِىْ مِنْ لَّـدُنْكَ وَلِيًّا (5) ↖
اور بے شک میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے پس تو اپنے ہاں سے ایک وارث عطا کر۔


 حروف مقطعات 

ک ھ ی ع صۤ۔ سے اس سورہ کا اغاز ہوتا ہے اور یہ حروف مقطعات ہیں الگ الگ توڑ توڑ کے پڑھے جانے والے حرف قران پاک کی بہت ساری سورتوں میں اللہ نے ان الفاظ کا استعمال فرمایا ہے جو توڑ توڑ کے پڑھے جاتے ہیں انہیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے اور ان کا اصل علم جو ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کو ہی ہے لیکن
 حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک بات یہاں میں اپ سے عرض کرتا ہوں کہ اپ دعا مانگا کرتے تھے یا ک ھ ی ع صۤ۔  اس کا مطلب کہ یہ اللہ کا ایک نام ہے یہ اللہ کا اسم گرامی ہے یہ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے
 حضرت اعلی حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ
 نے بھی اس کو ذکر کیا اپنے شعر کے اندر اپ نے یوں فرمایا  کہ گیسو یعنی بال ہیں دہن یعنی منہ ی ابرو یعنی انکھوں کے اوپر جو ابرو ہوتے ہیں انکھیں ص ک ھ ی ع صۤ۔ ان کا ہے چہرہ نور کا اپ فرماتے ہیں کہ یہ حضور کے چہرے کا اللہ نے ذکر کیا کہ میرے خیال سے یہ حضور کا چہرہ ہے
 تو یوں اللہ والوں نے اپنی اپنی اس کے اندر اظہار رائے کو  استعمال کیا ہے لیکن یہ کوئی حتمی رائے نہیں ہے اس کا معنی یہی ہے اس کا معنی اللہ جانتا ہے یا اس کا رسول جانتا ہے اصل معنی کیا ہے 

  اللہ نے اغاز کیا سورۃ کا تو یوں فرمایا کہ یہ میں ذکر کر رہا ہوں اپنے ایک بندے پر اپنی کی گئی رحمت کا جو میں نے اس پہ فرمائی تھی تو حضرت زکریا علیہ السلام کا ذکر اللہ نے خود فرمایا اور اپ نے بڑی محبت سے یہ ارشاد فرمایا کہ مجھے اس کا ذکر کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ اس پہ میں نے خود رحمت کی اور میں نے اپنے بندے پہ رحمت کی تھی حضرت زکریا علیہ السلام نبیوں میں سے ہیں ان کا نام نامی اسم گرامی یہاں لیا گیا ہے اور یہ اللہ کی عادت مبارکہ ہے کہ اللہ نبیوں کے نام لیتا ہے اور اکثر نبیوں کے نام اللہ نے استعمال کیے یا موسی یا عیسی یا ابراہیم یا لوط تو مختلف نبیوں کے ناموں سے قران میں ذکر کیا گیا لیکن جہاں حضور کا ذکر خیر اتا ہے وہاں نام نہیں لیے گئے بلکہ حضور کی صفتوں کا ذکر کیا ہے رحمت اللعالمین کہا گیا الم نشرح کہا گیا تو حضور کے درجوں کا ذکر ہے اقا کی صفتوں کا ذکر ہے لیکن باقی نبیوں کو جب اللہ بلاتا ہے تو ان کے نام لے کے بلاتا تو یہ فرق ہے باقی نبیوں کا حضور کے ساتھ فرق تو یہاں بھی اس کا نام لیا 

 ذِكْرُ رَحْـمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهٝ زَكَرِيَّا (2)

رحمت ربی کا میرا یہ بندہ تھا زکریا میں نے اس پہ رحمت کی تھی اس کا ذکر میں تمہیں میں سناتا ہوں اے نبی سنو میں نے اس پر رحمت کیسے کی اللہ حضرت زکریا علیہ السلام یہ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے اور جن کے ذمہ بیت المقدس میں مذہبی رسومات کو ادا کرنا تھا حضرت مریم کی خالہ کے شوہر بھی تھے  اور یوں اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپ کا بڑا قریبی رشتہ تھا اور حضرت مریم علیہ السلام کی نگرانی اسی لیے اپ کو دی گئی اور حضرت زکریا اپ کے نگران تھے جب بیت المقدس میں اپ عبادت کیا کرتے تھے
 کیا دعا مانگی اپ نے جس کا ذکر اللہ نے قران میں کیا
 اِذْ نَادٰى رَبَّهٝ نِدَآءً خَفِيًّا (3)

 حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا

جب اس نے پکارا اپنے رب کو بڑا چپکے چپکے پکارا حضرت ذکریا علیہ السلام بعض روایات میں اپ کی عمر مبارک 120 سال ہو چکی تھی اور اپ کی جو اہلیہ تھی ان کی عمر 98 برس ہو چکی تھی لیکن اپ بے اولاد تھے تو یوں یہ بے اولادی کا جو معاملہ ہے یہ کوئی نیا نہیں ہے بہت سارے نبیوں کو اللہ نے بے اولادی سے گزارا ہے اور وہ بے اولاد رہے ہیں حضرت زکریا علیہ السلام بھی انہی میں سے اور بے اولاد ہونا تو حضرت زکریا علیہ السلام جو ہیں اپ کی جو کہ عمر مبارک کافی زیادہ تھی اور بے اولاد ہونے کی وجہ سے یہ معاملات اپ کے جو ہیں وہ اس حوالے سے ازمائش میں تھے اج بھی اپ دیکھتے ہیں کہ بہت سارے جوڑے بے اولاد ہیں تو لہذا یہ اللہ کی دی ہوئی ہے ازمائش ہے اللہ سے چاہے اولاد دے جسے چاہے اولاد نہ دے اور بہت سارے ایسے ہیں جو بیٹیاں ان کی ہوتی ہیں تو بیٹیوں کو بیٹیوں کی پیدائش کے اوپر جس طرح سے لوگوں کا ری ایکشن ہوتا ہے اور جو ایسے الفاظ ہمارے معاشرے میں بولے جاتے ہیں جن کے اوپر جتنا بھی دکھ کیا جائے کم ہے کہ یہ تو بیٹیاں ہی جنتی جاتی ہیں اس کی تو اس کے تو لگتا ہے منڈا ہونا ہی نہیں اس کا تو بیٹا ہونا ہی نہیں ہے تو لڑکیاں ہی جنتی جا رہی تو ایسے الفاظ بولنا جو ہے یہ بہت ہی بڑا اللہ کی حکومت پہ حملہ ہے یہ اللہ کے اختیار کے اوپر بہت بڑا حملہ کیا گیا ہے  وہ تو خدا بناتا ہے جو تخلیق ہو رہی ہے وہ کسی انسان کے بس کی بات ہے بھلا اگر کوئی عورت یہ بات کر دیتی ہے کہ یہ تو بیٹیاں جنتی ہیں تو علماء فرماتے ہیں کہ ہمارا تو جی چاہتا ہے کہ اس زبان جو ہے نا وہ کھینچ دی جائے کہ  اتنا بڑا جملہ کہ تم یہ کہہ رہی ہو کہ یہ بیٹیاں یعنی خود اپنی مرضی سے جنتی ہے یا بیٹی کس کی اوقات ہے کہ وہ اس کے اندر دخل اندازی کر سکے یہ تو اللہ کا کام ہے نا وہ جسے چاہے بیٹے دے دے جسے چاہے بیٹیاں دے  لیکن اس قدر ہمارے معاشرے میں اتنا رف بولتے ہیں لوگ کہ اللہ کی حکومت
 پہ حملہ کر دیتے ہیں 
  120 سال عمر ہو گئی ہے 98 سال اہلیہ کی عمر ہے اور پھربھی دعا مانگ رہے ہیں  پھر بھی امید ہے پھر بھی امید ہے کہ میرا رب دے گا 120 سال یہاں تو 90 سال کی عمر میں لوگ ختم ہو جاتے ہیں پتہ نہیں کب لوگ قران سے سیکھیں گے کب قران سے ہدایت لیں گے بڑی جو ہے وہ عمر گزر چکی تھی 120 سال ہو گئے ہوئے تو دعا نہیں مانگی تھی اپ نے نا مسئلہ یہ تھا کہ نبی تھے رسول تھے تو اللہ کی حکمت جانتے تھے اللہ کی حکمتیں تو کبھی دعا ہی نہیں مانگی تھی اللہ کی بارگاہ میں یہ دعا کبھی کی ہی نہیں تھی کہ مولا اولاد دے دے کبھی نہیں کہا تھا ہمیشہ خاموشی اختیار فرمائی تو اللہ کو یہ انداز بڑا پسند  ایا یہ انداز اتنا اچھا لگا کہ قران میں اس کا ذکر کیا کہ جب حضرت زکریا نے بڑی خفیہ انداز میں ندا کی دعا مانگی خفیہ انداز بڑا مجھے اچھا لگا تو اس انداز کو قران کی زینت بنا دیا قران کے سینے بھی اسے لکھ دیا
قَالَ رَبِّ اِنِّـىْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّىْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَيْبًا وَّلَمْ اَكُنْ بِدُعَآئِكَ رَبِّ شَقِيًّا (4) ↖
کہا اے میرے رب! میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور سر میں بڑھاپا چمکنے لگا ہے اور میرے رب! تجھ سے مانگ کر میں کبھی محروم نہیں ہوا۔
  انداز طلب بڑا پیارا تھا تو اس کو اللہ نے ذکر کیا کہ خفیہ طریقے سے مجھے بلایا چپکے چپکے مجھ سے دعا کی ہے پہلے انداز طلب اب الفاظ طلب اور جو الفاظ استعمال کیے دیکھیے پہلے اپنی کمزوری کا ذکر کیا مولا میرے پلے شے کوئی  میں کمزور ہو گیا میری ہڈیاں بوڑھی ہو گئی میری ہڈیاں  کمزور ہو گئی ہے 120 سال کی عمر ہو چکی ہے میری ہڈیوں میں طاقت نہیں رہی اپنی کمزوری کا ذکر کر رہے ہیں چاہتے تو تھوڑا سا رویہ اور یہ بھی ہو سکتا تھا مولا تیرا رسول ہوں  نبی ہوں دے مجھے انداز ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ تھوڑا سا اس کے اندر وقار ہوتا لیکن نہیں انداز عاجزی والا ہے
انداز جھکا ہوا ہے انداز کے اندر ایک جھکنے کی کیفیت ہے اور اپنی عاجزی کو پہلے رکھا ہے کہ بولا دیکھ میری ہڈیاں بہت سیدھا ہو اور میرا سر بڑھاپے کی وجہ سے سفید ہو گیا ہے بوڑھا ہو گیا بال بھی چٹے ہو گئے ہیں اور میری ہڈیوں میں اب وہ جان نہیں رہی یہ عاجزی جو ہے یہ کتنی خوبصورت ہے اور ایک نبی اللہ کی بارگاہ میں یوں بیان کر رہا ہے اور یہ الفاظ اللہ نے بدلے نہیں ہیں ان کی لبوں سے نکلے قران میں درج کر دیے اللہ تو یہ انداز جو ہیں بڑے پیارے ہیں حضور علیہ السلام اللہ کے محبوب اللہ کے سب سے قربت میں رہنے والے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ  فرماتی ہیں کہ رات حضور میں میری طرف سے اور میرے پاس تھے تو  اس طرح مجھے فرماتے ہیں کہ عائشہ اجازت دیتی ہوں میں اپنے رب کی عبادت کر لوں  حضرت عائشہ فرماتی ہیں حضور مجھ سے اجازت کی ضرورت کیا ہے اپ کو اپ اٹھیے اور عبادت کیجیے فرمایا نہیں یہ وقت تمہارا ہے تیرے پاس آیا ہوں  اس لیے اجازت ضروری ہے  فرماتی ہیں میں نے دیکھا کہ حضور سجدے میں گئے تو اقا علیہ السلام بڑا روئے بہت روئے اپ کی زبان سے کچھ لفظ نکل رہے ہیں اپ فرماتی ہیں میرا جی چاہا میں سنوں کہ سجدے میں رسول کیا ارشاد فرما رہے ہیں  اتنی عاجزی ہے سجدے کے اندر رو رہے ہیں اور وہ بول رہے ہیں  فرماتی ہیں  میں سنتی رہی لیکن سمجھ نہ ائے کیونکہ سجدے میں تھے فرماتی ہیں میں اٹھی اور میں جا کے کان قریب کر لیا کہ میں سنو حضور کیا ارشاد فرما رہے ہیں تو اپ فرماتی ہیں میں نے سنا کہ حضور فرما رہے ہیں اے میرے خدایا اے میرے رب میرا جسم بھی تجھے سجدہ کرتا ہے میری روح بھی تجھے سجدہ کرتی ہے اے میرے رب میرا خیال بھی تجھے سجدہ کرتا ہے 

  اب تو لمبے سجدے کرنے والے لوگ ہی ختم ہو گئے اب تو لمبے سجدے کرنے والے مٹ چکے کوئی نہ عورت نظر اتی ہے ن مرد نظر آتا ہے جو لمبے سجدے کرتا ہو لمبے سجدے کر کے اپنے رب کو اس طرح کے جملے بولتے ہیں تو اپ فرماتی ہیں میں وہ الفاظ یاد کرنے لگی میں وہ الفاظ یاد کرنے لگی کہ میرے رسول نے یہ الفاظ بولے اور میں یاد کرنے لگی    اپ کو یہ لفظ بھول جائیں گے اپ سجدے میں نہیں بول سکے یہ محبتیں نہیں ہیں لوگوں کے نماز پتہ نہیں کس طرح پڑھتے ہیں اور وہ بھی دیکھ لیں کتنے پڑھتے ہیں 100 میں سے 90 لوگ تو ویسے ہی بے نماز ان کا سجدے سے تعلق ہی کوئی نہیں 

عاجزی اس حد تک تھی کہ لوگ جان ہی نہ سکے ان چیزوں کو اور بس اسی طرح دین کی بس دو چار چیزیں یاد کی ہوتی ہیں اسے دین سمجھ کے تو بھاگتے پھرتے ہیں دو چار چیزیں حفظ کی ہوتی ہیں دو چار چیزیں ان کو بس یاد کر کے سمجھتے ہیں یہ دین ہے دین تو جذبات کا نام ہے دین تو محبت کا نام ہے یہ تو انسوؤں کا نام ہے عاجزیوں کا نام یہ دین ہے ۔
دین کی حقیقت تک لوگ جا ہی نہیں پائے تو اللہ نے ان لفظوں کو چھوڑا نہیں اندازہ کریں  کہ اپ چاہتے تو لفظوں کی ضرورت کیا تھی اللہ کے پاس اپنے بڑے خوبصورت الفاظ ہیں اللہ کا اپنا کلام بڑا اعلی ہے اپنے کلام کی بڑی برکت ہے وہ خود اپنے لفظ بنا سکتا تھا لیکن اس نے اپنے کلام کے اندر ان کے لفظ ڈالے جو ایک بندے نے اپنی زبان سے نکالے لیکن انسان نے بولے تھے اس کو کلام خدا میں ڈال دیا یہ کتنی بڑی بات ہے
اللہ نے فرمایا اس کو میرے کلام میں لکھ دو سبحان اللہ فرمایا مولا میرے اندر کچھ نہیں رہا چلو یہ تو تھا اپنی عاجزی کا اظہار لیکن اگے دیکھیے اگے ایک مان اور ایک حوصلہ بھی ہے لیکن اللہ کے ساتھ محبت اور پیار کا انداز بھی ہے وہ کتنا پیارا ہے فرمایا اب تک مولا ایسا نہیں ہوا کہ میں نے جب بھی تجھ سے کچھ مانگا ہو اور میں نامراد رہا ہوں سبحان اللہ کبھی ایسا نہیں ہوا یہ بھی مجھے پتہ ہے کہ اگر میں نے مانگ لیا نا تو تو مجھے ضرور دے دے گا یہ مجھے پتہ ہے لیکن تیری حکمتوں کی خاطر میں خاموش رہا ہوں میں نے یہ دعا نہیں کی ہے 120 سالوں سے میں چپ ہو تو میں صبر کا پہاڑ بن کے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے تھا لیکن دل میں مجھے یقین ہے کہ اگر میں نے یہ دعا کر دی تو میرا رب مجھے کبھی بھی خالی نہیں چھوڑے گا اپ اس حوصلے اور اس محبت کا اندازہ کریں  پہلے فرمایا میرے پاس ہے ہی کوئی نہیں اور پھر کہا سب کچھ ہے میرے پاس اگر میں کہہ دوں تو ائے کیا انداز ہے کیا خوبصورت طریقہ ہے  تو اللہ نے اس کا ذکر قران میں کیا اگے فرمایا

وَاِنِّـىْ خِفْتُ الْمَوَالِىَ مِنْ وَّّرَآئِىْ وَكَانَتِ امْرَاَتِىْ عَاقِرًا فَهَبْ لِىْ مِنْ لَّـدُنْكَ وَلِيًّا (5) ↖
اور بے شک میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے پس تو اپنے ہاں سے ایک وارث عطا کر۔

تو وہ کیا وجہ تھی جو اپ نے اولاد کی دعا کو اللہ سے کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ اپ نے ہمیں بہت بڑی تربیت دی ہے حضرت زکریا علیہ السلام کے اس واقعے سے حضور کو جو بتایا جائے گا صحابہ جو بتایا جا رہا ہے اور قیامت تک انے والے مسلمانوں کو جو تعلیم دی جا رہی ہے وہ بہت بڑی تعلیم ہے کہ ساتھ وجہ بھی بیان کر رہے ہیں کہ میں کیوں یہ دعا کرنے لگا ہوں کیا خوبصورت بات ہے کیا بات کی میں ڈرتا ہوں اپنے بے دین رشتہ داروں سے 
کیوں کہ وہ میرے بعد دین ضائع نہ کر دے اور میری بیوی بھی بانجھ ہے پس مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا فرما  یہ دو وجوہات پہلی وجہ یہ ہے کہ میرے رشتہ دار سارے بے دین ہیں  یہ دیکھو کہ نبیوں کے بھی رشتہ دار بھی بے دین ہوتے ہیں 
جو نبیوں کے ساتھ لہذا یہ بھی کوئی نہیں اتنی ٹینشن نہیں  کہ دیکھو میرے ہی خاندان میں ایسے لوگ ہیں میں اتنا ماشاءاللہ نیک ہوں میں اتنی نیک ہوں میرے بچے اتنے نیک یہ باقی دیکھو کتنے ہمیں برے اختیار والے مل گئے نہیں ایسا نہیں ہوتا اللہ نہیں نبیوں کے اندر بھی بے دین رشتہ داروں کو پیدا کیا اور خدا اقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی انداز کچھ ایسا ہی تھا یاد کریں ذرا کہ اپ نے سر توڑ کوشش کر دی تھی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ ابو لہب کون تھا حضور کا رشتہ دار  ابولہب اور باقاعدہ رشتہ تھا مگر نہیں مسلمان ہوا الٹا حضور کے خلاف سازشیں کرتا تھا اقا علیہ السلام کے ساتھ بڑی زبردست منافقت کرتا تھا بڑے دشمنی کرتا تھا اتنی دشمنی تھی کہ حد ہو گئی تھی دشمنی کی اور اقا علیہ السلام کی دشمنی اس حد تک اس بدبخت نے کی کہ اللہ نے پوری سورہ  اس کے لیے اتاردی ابو لہب تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں اتنا دشمن تھا اور تھا کون رشتہ دار چچا تھا باقاعدہ تو یہ کوئی بات نہیں اس میں پریشان نہیں ہونا  کہ اپ کے رشتہ داروں میں اگر بے دینی ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے یہ رشتہ داروں کی بے دینی نبیوں میں بھی ہے بڑے بڑے بے دین لوگ ہوتے ہیں دین سے نفرت کرنے والے  دین کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا قطعا دین کے ساتھ کوئی رغبت نہیں ہوتی اپ انہیں اچھی باتیں سنائیں وہ یہاں سے سنیں گے ادھر سے ہی نکال دیں گے دوسرے کان سے نہیں دوسرے کان چلی جائیں اس کام سے عزت ادھر سے نکال دیں گے واپس ہمیں پتہ ہی نہیں پتا بے دین تو اللہ ایسے لوگوں سے محفوظ فرمائے اور دعا کرو کہ اللہ تمہیں اولاد بھی دین دار خود ہی دے دے یہ بھی بڑا مسئلہ ہے 


 قران پاک میں اللہ نے ایک ایسی ایت اتاری ہے کہ وہ اس ایت کو اگر کوئی پڑھنے والا صحیح پڑھ لے تو اس کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اتنی سخت ایت ہے وہ اس ایت میں اللہ یوں فرماتا ہے کہ
 جس نے ہمیں بھلا دیا ہم اس سے اس کا اپنا اپ بھلا دیں گے 
 جس نے مجھے بھلایا اور میری یاد سے منہ موڑ لیا میری یادکو چھوڑ دیا قران کہتا ہے ہم اس سے اس کی اپنی ذات کو بھلا دیں گے اسے اپنا نام بھی یاد رہ گیا تو کہنا اس کو کچھ بھی یاد نہیں رہنے دیں گے اس نے مجھے یاد کرنا چھوڑ دیا اس سے بڑی کیا سزا ہے مجھے بتاؤ کیا اپ کی ائیڈنٹٹی ختم ہو جائے  اس سے بڑی کوئی سزا نہیں ہے کہ لوگ تمہیں اس طرح فراموش کر دیں گے کہ جیسے تم زمین پہ کبھی ائے ہی نہیں تھے  بے دین رشتہ دار ہیں  تو پریشان نہیں ہونا اور اپ یاد کریں حضرت نوح علیہ السلام قران بیان کرتا ہے جب اپ نے دعا مانگی اور وہ سارا پانی اگیا اور وہ طوفان اگیا کشتی کے اندر اپ نے لوگ بٹھا لیے  اپ کا اپنا بیٹا جس کا نام کنان تھا قران نے اس کا ذکر کیا کہ وہ باہر رہا مسلمان نہیں ہوا تو اپ نے کہا بیٹے اجاؤ اس وقت جو حالت ہے تم بچ نہیں سکو گے یہ بہت بڑا عذاب ہے اللہ کا اجاؤ میری کشتی میں اجاؤ تب سنو میری بات تو حضرت نوح علیہ السلام کی اس اواز سے اس نے کہا تھا کہ نہیں میں نہیں اؤں گا اپ جائیں اپ کے ساتھ میرا تعلق ہی کوئی نہیں ہے میں نے کوئی اپ پہ ایمان نہیں لانا ٹھیک ہے اپ میرے باپ ہیں لیکن اپ کے ساتھ میرا کوئی دینی تعلق کوئی نہیں اپ نے کہا بیٹا تم بچ نہیں سکو گے پھر یہ پانی بہت زیادہ ہے اس نے کہا تھا نہیں اتنا زیادہ نہیں ہے یہ سامنے پہاڑ ہے میں اس کو چڑھ جاؤں گا پہاڑ کے اوپر تو نہیں ا سکے گا تو اپ نے فرمایا اج پہاڑ بھی نہیں بچے گا کوئی شے نہیں بچے گی میری کشتی میں ا جاؤ اگر تم بچنا چاہتے ہو اس نے کہا تھا جائیں بھلا پانی کبھی ا سکتا کہ پہاڑ بھی ڈوب جائے تو خیر جب اپ کے سامنے وہ لہر اٹھی اور اس نے اس کو جو ہے وہ غرق کر دیا تو ظاہر ہے باپ تھے اپ اس باپ کی محبت میں اپ نے پھر کہا اونچی اواز سے بولے اپ کہ مولا میرا بیٹا مولا میرا بچہ ایسی اواز اپ نے دی ظاہر ہے باپ تھے تو برداشت نہ کر سکے ان کی انکھوں کے سامنے بیٹا غرق ہو رہا ہے مولا میرا بیٹا تو فورا اواز اتی ہے جواب اتا ہے  نوح خبردار تم نے اس کی بات کی یہ تیرا بیٹا ہے ہی نہیں یہ تیری اولاد میں سے نہیں ہے تیری نسل ہی نہیں ہے  خبردار تم نے اس کی سواری کی جو وجہ خاموش ہو جاؤ اس کی بات نہ کرنا حضرت نوح علیہ السلام جو ہیں ساری زندگی توبہ کرتے رہے اس بات پہ کہ میں نے کیوں اس کو اواز دی میرے رب نے مجھے یہ کہا کہ تیری نسل ہی نہیں ہے تو مفسرین نے اس کے نیچے ایک بڑی خوبصورت بات لکھی ہے   اصل میں تمہاری اولاد وہی ہے جو تمہارے ساتھ دین پہ چلتی ہے جو تمہارے ساتھ دین پہ نہیں چلتی اس ایت سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ تمہاری اولاد ہی نہیں ہے اس کی فکر چھوڑ دو اس کی فکر نہ کرو جو دین پہ نہیں چل رہی جو دین دار تمہاری اولاد میں اس کی ٹینشن نہ لو اس کے لیے  پروا نہ کرو اس کے لیے اپنی زندگی کو ہلکان نہ کرو دعا کرتے ہو اس کے لیے لیکن اتنا ٹینشن لوگ کہ اس کے لیے اپنا سب کچھ ضائع کر کے بیٹھ جاؤ وہ بے دین ادمی ہے جو اللہ کو چھوڑے بیٹھا ہے وہ تجھے کب چھوڑ دے کیا پتا تو حضرت نوح علیہ السلام کو جب یہ سننا ہوا تو اپ فرماتے ہیں ساری زندگی میں توبہ کہ میں نے کیوں اپنے رب سے کہا کہ میرا بیٹا تو لہذا یاد رکھو یہ بات ذہن میں رکھیں اپ کی زندگی جو اولاد اپ کی دین پہ چلتی ہے اس کا فکر کرو اور جو دین پہ نہیں چلتی اس کو رب کے حوالے کرتا ہے سنبھالے گا  اس کی خاطر تم نے بیمار ہونا ہے نہ اس کی خاطر بہت زیادہ کوئی ٹینشن لینی ہے نہ بہت زیادہ اس کے لیے ہلکان ہونا ہے 
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ جو حضور کے بڑے قریبی صحابی ہیں اب یہ بات سنو ذرا بڑے قریبی صحابی ہیں بیمار ہو گئے بہت زیادہ طبیعت ناساز ہو گئی بیماری زیادہ ہو گئی اخری دن اگئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ ملنے کے لیے گئے تو اپ نے جا کے عیادت فرمائی ارشاد فرمایا کہ بھائی کیا مسئلہ ہے بتاؤ کسی اچھے طریقے کو بلاؤں تو تمہارے لیے دوائی لے ائے تو اپ نے فرمایا نہیں اب طبیب کی حاجت نہیں ہے اپ معاملہ اگے چلا گیا اب طبیب کی بولو سارے بولو اب مجھے کسی ڈاکٹر حکیم کی ہم اگے چلا کہا اچھا تو پھر کیا حکم ہے بتائیے کوئی اس مال پیش کر دوں اپ اپنی اولاد کو دے جائیں کوئی مال اپ کو پیش کر دیتا ہوں اپنی اولاد کے لیے رکھ لیں ان کو دے دیجیے گا تو اپ نے فرمایا نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے فرمایا عجیب ادمی ہے نہ اپ طبیب کے لیے مانتے ہیں نہ مال کے لیے مانگ رہے ہیں اپ کو چاہیے کیا ہے اس وقت کیا ارزو ہے تو اپ چونکہ صحابی رسول ہیں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ صاحب نعلین بھی اپ کا لقب ہے  حضور کے جوتے مبارک اٹھایا کرتے تھے اقا علیہ السلام کا عصا مبارک بھی اٹھانا اپ کی ذمہ داری تھی اور یہ اپ حضور  کا عصا اور جوتے سنبھالا کرتے تھے تو صحابہ کو صاحبِ نعلین والا کہا کرتے تھے تو بڑے قریبی صحابی ہیں تو فرمایا مجھے میرے نبی سے سورہ واقعہ ملی ہے اور میں نے اپنی اولاد کو سورہ واقعہ سکھا دی ہوئی ہے  میں نے اپنی اولاد کو سورہ واقعہ سکھائی ہوئی ہے اگر وہ اسے پڑھتے رہیں گے تو کبھی محتاج نہیں ہوں گے کبھی اللہ انہیں محتاجی کی زندگی نہیں دے گا کیونکہ میرے نبی کی حدیث ہے جو سورہ واقعہ پڑھتا ہے اللہ اسے محتاج نہیں کرتا تنگدستی نہیں اتی اس کی زندگی کے اندر اللہ کبھی بھی ایسے دن نہیں لائے گا کہ وہ تنگدست ہو جائے محتاج ہو جائے اسے لوگوں کے اگے ہاتھ پھیلانا پڑ  سورہ واقعہ اسے ایسا نہیں کرنے دے گی تو میں نے اپنے بچوں کو سورہ واقعہ سکھا دی لہذا انہیں اپ کی مال کی حاجت نہیں ہے اور ہاں اگر وہ نہیں پڑھیں گے سورہ واقعہ کو وہ نہیں پڑھیں گے نہیں اسے اس کو وہ بار بار اپنی زبان پہ لائیں گے بے دین ہو جائیں گے تو ایسے بے دینوں کے لیے میں ایک پائی بھی چھوڑ کے نہیں جانا چاہتا میری طرف سے وہ جہاں مرضی جائیں جو بے دین ہیں میں ان کے لیے ایک روپیہ نہیں چھوڑ کے جاؤں گا اپ کا مال بھی انہیں نہیں دینے دوں گا اگر سورہ واقعہ پڑھیں گے تو اللہ ویسے ہی ہوتا ہے ان کو کرم محتاج ہونے نہیں دے گا اگر بے دین ہیں تو اپ کا مال بن تک نہیں جانے دوں گا اپ کا مال کیوں جائے تو اگر تمہاری اولاد دین پہ ہے تو پریشان نہ ہو اللہ دین والوں کو کبھی بھوکا نہیں ہونے دیتا ہے  دین والے کے کھاتے ہیں عزتوں سے کھاتے ہیں محبتوں سے کھاتے ہیں پیار سے کھاتے ہیں احترام سے کھاتے ہیں حلال کا کھاتے ہیں کیونکہ دین والے ہوتے ہیں دین والوں کو اللہ کبھی بھوکا رکھے یہ کہاں لکھا ہے دنیا والے رہتے ہیں بھوکے دین والے نہیں رہ سکتے سنا دو گے  لہذا اس سے یہ پتہ چلا کہ میں نے اور اپ نے اپنی اولادوں کا یہی انداز دیکھنا ہے کہ ہم نے ان کے دین کے ذوق کو اگر بنا دیا دین کے شوق کو قائم کر دیا انہیں کچھ بھی نہیں ہوگا انشاءاللہ ہر صورت اللہ نوازتا جائے گا بھئی جو صبح سے شام تک سجدہ کرتا رہے پانچوں نمازوں میں وہ کیسے اللہ سے دور رہ سکے تو نماز پڑھے جو قران کی محبت والا ہو جس کا دل اللہ اللہ کرتا ہو جو اللہ والوں کے پاؤں دبانے والا بچہ ہو اسے کیسے کمی ا سکتی ہے جو اللہ والوں کی صحبتوں میں بیٹھتا ہو جس کا تعلق ان کے ساتھ ہو وہ کیسے  اللہ کی رحمت سے محروم  ہو گا  کیونکہ اللہ کی رحمت تو لے جائے گی نا اسے وہ کبھی نماز پڑھے گا کبھی   حضرت زکریا اپنے بے دین رشتہ داروں کی بات کر رہے ہیں بولا میں کبھی نہ تجھ سے دعا کرتا ہوں بے دین بدبختوں نے مجھے تنگ ہی بڑا کیا ان بدبختوں نے میری جان جو ہے نا  مشکل کر دی ہے  مولا اس لیے اب 120 سال کی عمر میں تو اس سے اولاد مانگی میرا اپنا پتر دے دے میرا اپنا بچہ مجھے دے دے مولا میں ان بے دینوں سے انہوں نے میرے نظام کا بیڑا غرق کر دینا ہے میں نے بیت المقدس میں بڑی محنت کی ہے میں نے بڑے سال وہاں نمازیں پڑھائی ہیں بڑا میں نے بڑے بڑے میں نے وہاں پراجیکٹ شروع کیے ہوئے ہیں یہ کیسے یہ سنبھال نہیں پائیں گے اسے بولا مجھے میرا اپنا بیٹا عطا ہو ان بے دینوں کی وجہ سے دعا مانگنا اللہ تو دیکھو کہ اس کو فکر ہوتی ہے وہ پھر مانگتا ہے اللہ سے اور اپنے لیے مانگی میرے سبحان اللہ  کیا بات ہے ذکریا علیہ السلام اور اگے  اللہ نے بڑی تعریف کی ہے ذکر اہل اسلام کی اور اپ نے فرمایا میرا بڑا صالح بندہ تھا یہ بڑا صالح تھا کیا بندہ بڑا ہی صالح تھا نیک ادمی تھا یار مجھے تعریف کی ہے کہ اپنے لیے نہیں مانگا وہ اولاد پھر اپنے ہم تم اولاد بھی اپنے لیے بھی میرا عقی بنے گا میری اولاد میری اولاد میرا کیا ہوگا میری اگے نسل نہیں چلے گی دیکھیں لوگ طعنے مار رہے ہیں میرا کچھ بند ہے میرا اپنے لیے مانگتے پھرتے ہیں بس لوگوں کو اپنی ناک سے اگے نظر ہی کچھ نہیں آتا یہاں بھی وہ بات کی کہ مولا کہ غلط فہمی نہ رہ جائے اپنے لیے نہیں مانگ رہا تیرے دین کے لیے تیرے دین کے لیے مانگ رہا ہوں تیرا دین مولا بہتر ہو جائے تیرے دین کی برکت کے لیے راز سمجھو یہ راز جانو  جس کو اللہ پہنچائے گا یہ راز اسے پہنچ رہا ہے وہ سمجھے گا اس راز کو جس کو میں سنا رہا ہوں اس کو سنے گا چاہے اج سے 100 سال بعد بھی سنے وہ ضرور اسے سنے گا یہ رازاس میں ا جائے تو نااہل سے بچنے کے لیے اپ نے یہ دعا مانگی ہے ایسی ہے بولو نااہل بندے سے بچنے کے لیے اپ نے یہ دعا مانگی کہ مولانا اہل بندہ نہ کہیں بیت المقدس میں چلا گیا اس نااہلی کے اوپر جو اج ہمارا حال ہو چکا ہے میں انشاءاللہ اگلے جمعے چند باتیں اپ سے کروں گا کہ لوگ جو نا اہل لوگ ہوتے ہیں اور وہ جب ایسے ایسے جگہوں پہ بیٹھ جاتے ہیں جو اہل لوگوں کا مقام تھا لیکن وہ نااہل بندہ وہاں بیٹھ گیا تو اس سے کیا لاس ہوتا ہے تو اپ نے اس لاس سے بچنے کے لیے دعا کی تھی وہ اللہ سے بچا لو اللہ مجھے اپ کو توفیق دے اور ہم قران کی نایات سے وہ نور لے جائیں جو اللہ نے اس میں دینے کی سعادت ہمیں دی ہے

Post a Comment

Previous Post Next Post